(۱/۲)
تاریخِ انسانی سے واقفیت رکھنے والے اہل علم
سے یہ بات مخفی نہیں کہ سولہویں صدی میں
خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد وجود پانے والا مغربی نظام تمام شعبہ
ہائے زندگی میں طرح طرح کی نئی تبدیلیوں کا
باعث بنا، نئی ایجادات نے انسان کو جدید سے جدید تر کی
دوڑ میں لگا دیا، جس کی وجہ سے نئے سیاسی، معاشرتی
اور معاشی نظریات وجود میں آگئے، مذہب کو نجی معاملہ قرار
دے کرعملی طور سے اسے انسانی زندگی سے بے دخل کیا گیا،
سرمایادارانہ سوچ و فکر کے حامل چند لوگوں نے نئے سیاسی نظام
جمہوریت کی چھتری تلے تمام عالم کی اقتصادیات کو
اپنے ذاتی مفادات کا تابع بنالیا؛حتیٰ کہ یہ چند
مٹھی بھر سرمایہ دار اپنی اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر بڑے
بڑے ملکوں کی سیاست و سیادت پر حاوی ہو چکے ہیں۔اس
محدود سرمایہ دار طبقہ کی یہ مسلسل کوشش ہے کہ مادی ترقی
اور جدید سے جدید ایجادات کا تسلسل قائم رہے؛ تاکہ انسانی
معاشرہ ان کے دیے ہوئے نئے سیاسی اور معاشی نظام کے تحت
ان کی اغوا کاری کاشکار رہے اور معاشیات و اقتصادیات سمیت
پورا معاشرتی نظام ان کے زیر اثر رہ سکے؛ چناں چہ جدید مادی
تجربات اور تجزیوں نے انسانیت پر ایسا نشہ طاری کردیا
ہے کہ وہ ضرورت و حاجت اور کمال کے مابین فرق کرنا بھول گئے، بازار میں
جو نئی چیز آگئی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اورخریدتے جاتے
ہیں، خواہ ان کی مالی و اقتصادی حالت اور مالی بجٹ
اس کی اجازت نہ دیتا ہو۔
سرمایہ دارانہ قوت نے نہ صرف انسانوں کی محنت اور
فکر سے تیار کردہ موجودہ تمام اشیاء پر تسلط جمایا ہوا ہے، بلکہ
آئندہ وجود میں آنے والی چیزوں کو بھی نگل جانے کے لیے
تیار بیٹھی ہے، اس سرمایہ دارانہ قوت و طاقت نے نہ صرف
مزدور و متوسط طبقے کو اپنا غلام بنا لیا ہے؛ بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ انسانی
محنتوں پربھی قابض نظر آتی ہے، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ
مستقبل میں انسان کو غلام بنانے اور اس کی کمائی ہوئی
دولت اس کے ہاتھ میں آنے سے پہلے قبضہ کرلینے کی غرض سے عالمی
سطح پر قرض لین دین کو انتہائی آسان اور عام بنا دیا گیا۔سرمایہ
دار نے اپنی دو دھاروں سے انسانی سرمایہ کو ذبح کردیا ہے،
ایک طرف تو اس نے سامان اور خدمات وغیرہ کو فروخت کرکے نفع کمایا،
تو دوسری طرف تاخیر کی صورت میں سود بھی وصول کرنا
شروع کردیا، لہٰذا سرمایہ دار نے یہ کوشش کی کہ خرچ
کو آسان سے آسان تر بنا دیا جائے، چناں چہ اس غرض سے اصل زر سونا، چاندی
کی جگہ کاغذی نوٹ اور بینک کی چیک کو رواج دیا
گیا، پھر مزید اس میں نت نئی شکلیں ایجاد کی
گئیں، حیرت انگیز ترقی یافتہ الیکٹرونک ایجادات
اور نہایت تیز رفتار مواصلات کے ذریعہ قرض لین دین
سہل اور آسان بنانے کے لیے مختلف کارڈ مارکیٹ میں لائے گئے، جن
میں اے ٹی ایم کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ اور کریڈٹ
کارڈ زیادہ مروج ہیں؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ خرچ کو ممکن
بنایا جاسکے، دوسری طرف تاخیر کی صورت میں مزید
رقم وصول کرنے کا موقع فراہم ہوجائے، غرض اس سب کا مقصدمحض انسانیت کی
خدمت نہیں؛ بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ دنیا کاخرچ اس کی پیداوار
سے بڑھ جائے اور وہ بالآخر اپنا سرمایہ اور وجود پوری طرح ان سرمایہ
داروں کے پاس گروی رکھنے پر مجبور ہو جائے۔
کریڈٹ
کارڈکے وجودمیں آنے کی وجہ اوراس کی ضروت کیوں پیش
آئی؟
اس بات کوعلماء اورمعاشیات کے ماہرین نے مختلف
اندازاورتعبیرات میں بیان کیا ہے، حضرت مولانامفتی
محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ صحیح بخاری کی درسی
تقریر”انعام الباری، ، میں ”کریڈٹ کارڈکی ضرورت کیوں
پیش آئی“کے عنوان سے فرماتے ہیں: ”پہلے یہ سمجھ لیں
کہ کریڈٹ کارڈکی ضرورت کیوں پیش آئی؟وجہ اس کی
یہ ہے کہ چوری، ڈاکے بہت ہونے لگے ہیں، اگرکوئی آدمی
گھرسے نکلے اور اسے لمبی چوڑی خریداری کرنی ہو، اب
اگروہ جیب میں بہت سارے پیسے ڈال کرلے جائے، تو خطرہ ہے کہ ڈاکہ
پڑجائے، کوئی چھین لے جائے، خاص طور پر اگر کہیں
سفرپرجارہاہوتوہروقت اپنے پاس بڑی رقم لے کرپھرنے میں بہت خطرات ہیں؛
اس لیے اس کاایک طریقہ نکالاکہ بینک ایک کارڈجاری
کرتاہے، جس کوکریڈٹ کارڈ کہتے ہیں“۔(۱)
بعض حضرات نے اسے نئے
معاشی نظام کانتیجہ قرار دیا ہے۔(۲)فقہ اکیڈمی ہندکی طرف سے جوسوالنامہ کریڈٹ
کارڈپربحث کے حوالے سے مرتب کیاگیاتھااس میں گلوبلائزیشن
اوراس کے نتیجے میں معیشت و تجارت میں رونماہونیوالے
اثرات اوررقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی
حاجت وضرورت کوکریڈٹ کارڈکے وجودمیں آنے کاسبب بتایاگیاہے(۳)،یہی مذکورہ بالاوجہ مولاناخالدسیف الله
رحمانی صاحب نے بھی کریڈٹ کارڈکے حوالے سے اپنے مقالہ میں
بھی تحریرکی ہے(۴)،ڈاکٹروہبہ
مصطفی زحیلی صاحب کریڈٹ کارڈپراپنے مقالہ”بطاقات
الائتمان“ میں اسے سماجی اورمعاشی انقلاب قراردیا ہے۔(۵)
بہرحال کریڈٹ کارڈکے وجودمیں آنے کی جووجہ بھی
بیان کی جائے وہ اپنی جگہ ہے؛ لیکن اتنی بات توسب میں
قدرے مشترک اورمسلم ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں
وجودپزیر ہوا ہے؛ کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی
منافع کے محرک کوبے لگام گھوڑے کی طرح آزاد چھوڑا گیا، جس کے نتیجے
میں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے نت نئے طریقے
اختیارکیے گئے، سرمایہ دارکے استحصالی دماغ نے لوگوں کے
سرمایہ کوسمیٹنے کے لیے بینکنگ کے نظام کومتعارف کروایا،
اسی پر بس نہیں؛ بلکہ آئے دننئے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام الناس
کاخون نچوڑا جا رہا ہے، یہ کیسے ہورہاہے، اس بارے میں شیخ
محمدمختارسلامی صاحب، مفتی اعظم تیونس نے تفصیلی
گفتگو کی ہے، وہ کریڈٹ کوعصرحاضرکی حیرت انگیزترقی
یافتہ الیکٹرونک ایجادات اور تیز رفتار مواصلات کاشاخصانہ
قراردیتے ہیں۔(۶)
کریڈٹ
کارڈکی تاریخ اور پس منظر
”بیت التمویل الکویتي“کی طرف سے کریڈٹ کارڈکی تاریخ کچھ یوں
بیان کی گئی ہے: ”پیمنٹ کارڈ(Payment Card)جاری
کرنے کی طرف پہلا قدم امریکی ریاستوں میں ویسٹرن
یونین(Western Union) نامی کمپنی نے اٹھایا،
اس کمپنی نے ۱۹۱۴/ میں اپنے بعض خاص کسٹمرزکوواجبات کی ادائیگی
(Payment)
میں مہلت وسہولت فراہم کرنے کی غرض سے ایک کارڈجاری کیا۔
۱۹۱۷/
میں بعض بڑے
ہوٹلوں، کاروباری مراکز، پیٹرولیم کمپنیوں اوراسٹیل
ملز (Steel Mils)نے وسیع پیمانے پرخاص طرزکے
کارڈجاری کیے، جوصرف انہی مذکورہ بالااداروں میں استعمال
کیے جاسکتے تھے، اسی بنیادپر۱۹۲۴/ کوجنرل پیٹرولیم کارپوریشن (Genrel
Petroliam Cord)نے عمومی سطح پرکیلی
فورینا میں ایک حقیقی کریڈٹ کارڈجاری کیا؛
تاکہ اس کمپنی سے پیٹرولیم موادخریدنے والے کسٹمرزاس
کارڈکی بنیادپرفی الفورادائیگی کے بجائے بعدکی
مقرر تاریخوں میں پیمنٹ (Payment)
کرسکیں۔(۷) ۱۹۲۴/ کے بعد ڈنرزکلب(Diner's Club)کے نام سے جوکمپنی نے کریڈٹ
کارڈجاری کیا، اس کی ابتدا کے بارے دوقول ہیں، بعض حضرات
جیسے ڈاکٹر بکربن عبدالله ابوزید (۸)رکن اللجنة الدائمة للإفتاء والبحوث اورڈاکٹرمحمدعلی القری بن عید(۹) رکن مرکزأبحاث الاقتصاد الإسلامی، جامعة الملک عبدالعزیز، جدہ اور جناب فتحی شوکت صاحب، نابلس فلسطین(۱۰)کے نزدیک (Diner's Club)کے نام سے کارڈ جاری کرنے والی
کمپنی ۱۹۴۹/ میں قائم کی گئی، ابتداء اس کمپنی نے
صرف شام کاکھانا ہوٹلوں پر کھانے والوں(Diner's )کے لیے کارڈکااجراء کیا۔(۱۱)
Diner's Club
کے بعدامریکن ایکسپریس (American Express
) اورکارٹ بلانچ (Carte Blanch) میدان میں آئے، پھر۱۹۵۱/میں بینکوں نے اس طرف پیش قدمی کی،
نیویارک، امریکہ میں فرانکلین نیشنل بینک
(Franklin
National Bank)نے کریڈٹ کارڈجاری کیا،
کریڈٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کے نظریہ کی کامیابی
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسال کے قلیل عرصہ میں صرف امریکہ کی
مختلف ریاستوں میں سو(۱۰۰)کے قریب بینکوں نے کارڈجاری کرناشروع کیا۔۱۹۵۵/ میں(First Nationat Bank of Bostan)نے (Ckeek Credit
plan's)کے نام سے کریڈٹ کی دنیا میں ایک نیا
پلان پیش کیا، جس کی وجہ سے کریڈٹ کارڈنے مزیدترقی
کی راہیں طے کیں، اس خاص پلان کا مقصدبینکوں کے صارفین
کومشینوں کے ذریعے بسہولت قرضے فراہم کرنا تھا، بینکوں نے اس
حوالے سے مزیدپیش رفت کی، یہاں تک کارڈہولڈرکی طرف
سے جاری ہونے والے چیک(Cheque Guarantee Card) اوراس میں لکھی ہوئی
رقم کی ادائیگی کی ضمانت بھی بینکوں نے قبول
کرنی شروع کر د ی۔(۱۲)۱۹۵۹/ میں امریکہ کے سب سے بڑے بینک(Bank of
Amrica) نے بھی کریڈٹ کارڈجاری کرناشروع کیا۔(۱۳)اسے (Chase Bank)کاتعاون بھی حاصل تھا، ان دونوں بینکوں
کا اشتراک (Chase Manhatten)کے نام سے جانا جاتا تھا۔(۱۴) Bank of Amricaنے کارڈکی مانگ اورچلت کودیکھتے ہوئے دیگربینکوں
کے تعاون سے (National Bank America Card Crop) کے نام سے”کریڈٹ کارڈ“جاری
کرنے اوراس کے تمام معاملات کے لیے ایک اور ادارے کوقائم کیا۔(۱۵)بینکوں کے اسی مذکورہ تعاون اورباہمی اشتراک
کے نتیجے میں ماسٹر کا ر ڈ وجودمیں آیا، جو(First
National Bank of tuisuiolle)کی ملکیت تھا، اس کارڈکوعوام
کی طرف سے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔(۱۶) Master Card
کی شاندارکامیابی کے بعد۱۹۷۷/ میں بعض بینکوں نے باہمی تعاون اشتراک کے نام
سے(Visa
Carporation)کے نام سے ایک اورادارہ بنایا، جو (Visa)
کے نام سے کریڈٹ کارڈاوردیگرکارڈجاری کرنے لگا۔(۱۷)اس دوران عالمی سطح پر کریڈٹ کارڈزنے رواج وشہرت
پائی، امریکن ایکسپریس (American Express)
ماسٹر کارڈ (Master Card) یورو کارڈ (Euro Card)وغیرہ۔(۱۸)کریڈٹ کارڈکی بے انتہامقبولیت، شہرت اوررواج
نے کارڈجاری کرنے والے اداروں کوبین الاقوامی کمپنیوں
کامقام دیا، یہاں تک کہ ان کمپنیوں نے خودکارڈجاری کرنے
کے بجائے، مختلف کارڈجاری کرنے والے بینکوں کو ممبر بنانا شروع کیا،
ممبرکواس حوالے سے اصول وضوابط بناکردیئے، اورکریڈٹ کارڈکے معاملات کی
نگرانی کے بدلے یہ کمپنیاں ممبربینکوں سے کمپنی کے
نام سے کارڈجاری کرنے پراجرت وصول کرتی ہیں۔(۱۹)
کارڈ
جاری کرنے والی کمپنیوں کا تعارف
عالمی سطح پرمذکورہ بالاکمپنیاں براہ راست یا
بینکوں کے واسطے سے مختلف نوعیت کے کریڈٹ کارڈجاری کرتی
ہیں، ان میں سے بعض کاتعارف ذیل میں پیش کیاجاتاہے۔
ویزا انٹرنیشنل (Visa International)”ویزا“(Visa)ایک
ایسی تنظیم اورکمپنی کانام ہے، جودنیاکے مختلف خطوں
میں موجودممبربینکوں کوکریڈٹ کارڈزکے حوالے مختلف انواع کی
خدمات مہیاکرتی ہے، بینکوں کے داخلی نظام میں دخل دیے
بغیرمذکورہ بالاکمپنی فیس لے کران کی رہنمائی کرتی
ہے۔”ویزا“کے دوبڑے شعبے ہیں:( الف)- U.S.A Visaیہ امریکہ میں”ویزا“کے نام سے کریڈٹ
کارڈکے معاملات کوسنبھالتی ہے۔(ب)- ویزاانٹرنیشنل (Visa
International) یہ بین الاقوامی
اورعالمی سطح پرخدمات انجام دے رہی ہے، دنیاکے ۱۳۶سے زائدممالک میں اس کی برانچیں ہیں۔(۲۰)ویزاانٹرنیشنل تین طرح کے کارڈجاری کرتی
ہے: ۱- بطاقة الفیزا الفضیة(Visa Silver Card)۲- بطاقة الفیزاالذہبیة(Visa Goldend Card)۳ - بطاقةا لفیزاالإلکترون(Visa Electronic Card)۔(۲۱) امریکن ایکسپریس(American Express)
یہ عالمی سطح کاایک بہت بڑابینک اورمالیاتی
ادارہ ہے، بینکوں سے متعلق مالیاتی امورکی ادائیگی
کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ کارڈبھی جاری کرتاہے، امریکن ایکسپریس
کے نام سے مشہورومعروف ہے۔امریکن ایکسپریس تین طرح
کے کارڈجاری کرتاہے،۱-امریکن
ایکسپریس گرین کارڈ(American Express Green Card)،
۲-امریکن ایکسپریس گولڈن کارڈ(American
Express Golden Card)، ۳-امریکن ایکسپریس ڈائمنڈکارڈ(American
Express Dionamd Card)․(۲۲) ماسٹرکارڈ(Master Card):ماسٹرکارڈانٹرنیشنل مارکیٹ
میں ایک جاناپہچانااورمعروف نام ہے، ۲۳۰۰ سے زائدمالیاتی ادراوں کواپنے صارفین سے
معاملات کرنے میں ماسٹر کارڈکاتعاون حاصل ہے۔”ماسٹرکارڈاورویزاکارڈ“کے
(۲۰۰۰۰)سے زاائدمالیاتی ادارے ممبر ہیں، جو دنیا
کے مختلف اطراف واکناف میں صارفین کوسہولیات فراہم کررہے ہیں۔اسیس
پرائیویٹ لمیٹڈ (Access Private Limitde): برطانیہ میں کارڈجاری
کرنے اوران کے ذریعے مالیاتی لین دین میں بینکوں
کومرکزی حیثیت حاصل ہے، ایک کمپنی جواسیس
پرائیویٹ لمیٹڈکے نام سے مشہور ہے، چاربرطانوی بنکوں کے
باہمی تعاون سے وجودمیں آئی ہے، وہ چار بینک درج ذیل
ہیں: ۱-لویڈس بینک(Lovidas
Bank)۲-میڈلانڈبینک(Maidelande Bank) ۳-نارتھ
ویسٹرتھ بنک(North Whersth Bank) ۴-نیشنل بینک آف اسکاٹ لینڈ (National
Bank of Iskatland) ․(۲۳)
بارکلیزکارڈ(Bar Clay's Card):بارکلیزکارڈکے نام سے یہ
کارڈبھی برطانیہ کاایک بینک بارکلیزبینک جاری
کرتاہے، ان دونوں کمپنیوں نے اپنے کارڈوں کی مانگ اورچلت کی وجہ
سے انھیں عالمی حیثیت دینے کی پالیسی
اپنائی، (Access)نامی کمپنی نے ماسٹر کارڈ
انٹرنیشنل سے اس حوالے سے معاہدات کیے، جس کے نتیجے میں
جہا ں جہاں ماسٹر کارڈ کوقبول کیا جاتا ہے، وہاں پرAccessوالوں کاکارڈبھی استعمال کیاجانے لگا، اس طرح بارکلیزبینک
نے ویزا (Visa)کمپنی سے تعاون حاصل کیا،
اوراپنے صارفین کو انٹرنیشنل سطح پر”ویزا“کے مراکز اور ”ویزا“کارڈکی
طرح کارڈاستعمال کرنے کی سہولت فراہم کی، لہٰذا جہاں بھی
”ویزا کارڈ“ مستعمل ہے وہاں پربارکلیزکارڈکے ذریعے بھی خریدوفروخت
اور دیگر سہولیات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کریڈٹ کارڈکی
لغوی تعریف
کریڈٹ کارڈکوعربی میں ”البطاقة الائتمانیة“ کہتے ہیں، چوں کہ عربی میں یہ دوجملوں
سے مل کربناہے؛ لہٰذا ان میں سے ہرایک کی علیحدہ
تعریف کے بعد پھر مجموعہ کی تعریف ذکرکی جائے گی۔
بطاقة
کی تعریف
بطاقة کی جمع بطاقات ہے، کتابة کے وزن پر، جیسے کہ
صاحب تاج العروس نے ذکرکیاہے، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ”البطاقة بمعنی الورقة“کاغذکے چھوٹے سے ٹکڑے کوکہاجاتاہے، جب کہ علامہ جوہری
کہتے ہیں کہ کپڑے پر چسپاں اس رقعے کوکہاجاتاہے جس میں سامان کی
قیمت، وزن یاعدد مذکورہوتاہے، لعض حضرات اسے مصری زبان کالفظ
قراردیتے ہیں، جب کہ دوسرے بعض اسے مصری زبان کے ساتھ مقید
نہیں کرتے؛ بلکہ اسے عام قراردیتے ہیں۔ ابن سیدہ
فرماتے ہیں کہ ابن الاعرابی کاقول اس بارے میں صحیح ہے کہ
یہ ورقہ کے معنی میں ہے۔(۲۴)خلاصہ یہ ہوا کہ بطاقة ایک فصیح عربی
کلمہ ہے اوریہ کاغذ(کے ٹکڑے ) یاپرچی کے معنی میں
مستعمل ہے، یہی بطاقات کااصلی معنی ہے، پھرزمانے کے گزرنے
کے ساتھ اس میں ترقی ہوئی اوریہ دھات سے بنایاجانے
لگا، اس پرکارڈنمبراورحامل کارڈکانام کھدا ہواہوتاہے، پھراس میں مزیدترقی
ہوئی اوریہ پلاسٹک سے بنایاجانے لگا۔(۲۵)
کارڈکی
فنی اوراصلاحی تعریف:
پلاسٹک کابناہوا۵.۵سینٹی میٹرسے ۵.۸سینٹی میٹرتک کاایک مستطیل ٹکڑا
جس پرحامل کانام،تاریخ اصداروانتہاء،کارڈجاری کنندہ کانام،اورحامل
کارڈکی ظاہری علامت (اگر موجود ہوتو) جلی حروف میں لکھے
ہوئے ہوتے ہیں۔کارڈکی عالمی کمپنی اور بینک کی
مخصوص علامت واضح طورپرپرنٹ ہوئی ہوتی ہے۔اس کی پشت پربعض
اہم معلومات درج ہوتی ہیں، جیسے کارڈکی نوعیت،اس
کاسیریل نمبر اور کارڈ ہولڈرکاشخصی نمبر،بینک اور کارڈ
جاری کنندہ کی مہراورکارڈجاری کنندہ کارابطہ اورپتہ
اورکارڈہولڈرکے دستخط وغیرہ۔(۲۶)
کریڈٹ
(الائتمان)کی لغوی اوراصطلاحی تعریف
کریڈٹ انگریزی زبان کی اصطلاح ہے،کریڈٹ
عصرحاضرکے معروف معنی میں پہلے استعمال نہیں ہوا؛البتہ اس کے
شواہداوراستیناس بعض حضرات نے ذکرکیے ہیں،جوعنقریب آپ
حضرات کے سامنے بیان کیے جائیں گے۔ کریڈٹ (Credit)کے
معنی کے بارے میں اقتصادیات سے بحث کرنے والے معاصرعلماء میں
اختلاف ہے،اس میں دوقول ہیں،ایک قول یہ ہے کہ کریڈٹ
(الائتمان )قرض کے معنی میں ہے، جیساکہ ڈاکٹرعبدالوہاب ابوسلیمان
کی رائے ہے،جب کہ ان کے علاوہ باقی حضرات اسے اعتمادکے معنی میں
لیتے ہیں،ان میں سے ہر ایک کی تفصیل پیش
خدمت ہے۔قول اول :کریڈٹ بمعنی الاِقراض:ڈاکٹرابوسلیمان
عبدالوہاب صاحب کہتے ہیں کہ عام طورسے ماہرین اقتصادیات اوربینکارجضرات
کریڈٹ کاترجمہ الائتمان (بمعنی اعتماد)کے کرتے ہیں ، اور وہ اسے
کریڈٹ کاترجمہ قراردیتے ہیں،جب کہ انگلش ڈکشنریوں کی
مراجعت سے اس کے بہت سارے معانی سامنے آتے ہیں ۔ عام طورسے اس
کااطلاق آدمی کے مرتبے،اس کی عزت وتوقیراورنسبت پرہوتاہے،کسی
کی برابری کااعتراف کرنا،اچھی شہرت،ابتداء واعتماداوربینک
میں موجوداس کے اکاؤنٹ اوربیلنس کوبھی انگریزی میں
کریڈٹ کہتے ہیں، اسی طرح ثمن کی ادائیگی میں
معتمدہونے کی وجہ سے اس کی ادائیگی سے قبل اپنی
ضروریات کے حصول پرقدرت پانا،کسی کے حصوں کا اعتراف کرنا،امتحان میں
امتیازی مرتبے سے کامیاب ہونے کی وجہ سے ملنے والے
بلندعلمی مرتبہ،اورتجارتی معاملات میں شہرت اور مرتبہ وغیرہ
کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔(۲۷) یہی وہ معانی ہیں جن سے ائتمان کے معنی
کی تخصیص ہوتی ہے جوکہ اس بحث کامحورہے۔ (Card)کے
بھی بہت سارے معانی ہیں،ان میں سے سب سے مشہوراورمعروف یہ
ہے کہ کارڈپلاسٹک کے بنے ہوئے اس ٹکڑے کوکہتے ہیں،جسے کوئی بنک جاری
کرتاہے،یاکوئی اورادارہ ،کارڈہولڈرکے لیے،اس پرکارڈ ہولڈر سے
متعلق بعض اموردرج ہوتے ہیں،اگرکریڈت کے قبیل سے ہوتواسے نقدرقم
کے حصول یادین کے حصول کی غرض سے جاری کیاجاتاہے۔(۲۸)
قول
ثانی:کریڈٹ بمعنی الثقہ(اعتماد)
عام ماہرین اقتصادیات کے نزدیک کریڈٹ
اس اعتمادکوکہتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی شخص یامالیااتی
ادارہ اسے مستقبل میں ادائیگی کی بنیاد پر ضروریات
پوری کرنے کی قدرت دیتاہے۔(۲۹) الائتمان ”الأمان“ اور”الأمانة“
سے باب افتعال کامصدرہے،جب کہ الأمان،سچائی،اطمینان،عہد،طرف داری
کوکہتے ہیں،اورمامون بہ (جس کے ذریعے دوسرے کوامن والابنیاجاتاہے)وہ
اعتمادہے۔(۳۰)ماہرین
اقتصادیات کے نزدیک ائتمان کی تعریف یہ ہے کہ
”موجودہ قیمت(یعنی اشیاء سامان وغیرہ)کاتبادلہ
کرنااس کے برابرقیمت مؤجلہ کے وعدے کے مقابلے میں اورغالباًیہ قیمت
نقدمیں ہوتی ہے۔(۳۱)جب کہ بینک کی اصطلاح میں ایسے
عقدکوکہتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی شخص کوایک معین
مبلغ کا اعتماد جاری کرتاہے۔ (بطاقات الائتمان البنکیة
في الفقہ الإسلامي:۴۴) اور مالیاتی شعبوں میں ائتمان اس قرض کوکہتے
ہیں جوبینک کسی بھی شخص کوفراہم کرتاہے۔(۳۲)
کریڈٹ کارڈکی اصطلاحی تعریف
مجمع الفقہ الإسلامی جدہ نے اپنے ایک اجلاس جو۷-۱۲/۱۱/۱۴۱۲ھ میں ہوا، قرارداد نمبر(۵۶/۱/۷)کے ذریعے کریڈٹ کارڈزکی تعریف درج ذیل
الفاظ میں کی ہے:”یہ ایک سندہے،جوجاری کنندہ ایک
عقدکی بناء پرکسی شخص حقیقی یامعنوی کوفراہم
کرتاہے،اوروہ اس کواس سندکے ذریعے اشیاء کی خریداری
اور سہولیات کے حصول پرقدرت دیتاہے،اس پرفوری ادائیگی
واجب نہیں ہوتی؛ کیوں کہ جاری کنندہ اس کی طرف سے
ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرتاہے(اس شرط پرکہ وہ بعدمیں
اسے اداکردے گا،بعض جاری کنندہ ایک معین مدت کے بعد غیر
اداشدہ بلوں کی مقدارپرجرمانے کے نام سے سودی فوائدحاصل کرتے ہیں“۔
(۳۳)
بعض حضرات نے (Debit
Card)اور(Charge Card) کوبھی کریڈٹ کارڈزکی
عمومی تعریف میں داخل کیاہے،جب کہ وہ اس کی تعریف
میں اصالتا ًنہیں؛ بلکہ تغلیباً داخل ہوتے ہیں۔کریڈٹ
کارڈ(Credit Card)کوعربی میں:”بطاقة الإقراض بزیادة
ربویة والتسدیدعلی أقساط“(۳۴)،”بطاقة الائتمان الإقراضیة“(۳۵)،اور”بطاقة الائتمان“ بھی کہتے ہیں۔(۳۶)یعنی سودی بنیادوں پرقرض فراہم کرنے
والااورقسط وارادائیگی کا کارڈ۔ کریڈٹ کارڈ کی اب
تک پانچ اقسام وجود میں آئی ہیں:۱- عام کارڈ، یاسلورکارڈ، ۲-ممتازکارڈ،یاگولڈن کارڈ(۳۷)، ۳-پلاسٹک کارڈ(Premium
Card)(۳۸)، ۴-گولڈ کارڈ، ۵-کوبرانڈیڈکارڈ
(Co-branded
Card)۔(۳۹)
$ $ $
حواشی:
(۱) العثماني، المفتي محمدتقی
حفظہ اللّٰہ، انعام الباری، کتاب الحوالات، کریڈٹ کارڈ: ۶/ ۴۹۱، ۴۹۲، مکتبة الحراء کراتشي․
(۲) مجلّة مجمع الفقہ الإسلامي، بطاقات الائتمان، نبذة تاریخیة
للبطاقات المصرفیة: ۸/۱۰۶۳، ۱۰۶۴، جدہ․
(۳) بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی
احکام، فقہ اکیڈمی، انڈیا، سوالنامہ،ص: ۱۵، دارالاشاعت کراچی،
۲۰۰۸/۔
(۴) حوالاسابق،ص: ۸۳۔
(۵) الزحیلي، وہبة مصطفی، بطاقات الائتمان، تحت عنوان:
”تقدیم“، ص: ۱، بحث ومحاظرة ألقاہا لدورتہ الخامس عشرفي مسقط (سلطنة عمان)۲۰۰۴م․
(۶) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :بینک
سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام، اسلامی فقہ اکیڈمی،
انڈیا، ص: ۱۱۹، ۱۲۱، درالاشاعت کراچی ۲۰۰۸/۔
(۷) الوثائق، الوثیقة (رقم: ۱)بحث عن بطاقات الائتمان
المصرفیة والتکییف الشرعي المعمول بہ، في بیت التمویل
الکویتي، اعداد: مرکزتطویرالخدمة المصرفیة، بیت التمویل
الکویتي، بحث منشورفي مجلة مجمع الفقہ الإسلامی بجدة: ۷/۳۴۳․
(۸) أبو زید،بکر بن عبد اللّٰہ،بحث عن بطاقة
الائتمان،ص:۴،۵،الطبعة
الثانیة:۷۱۴۱ھ،السعودیة․
(۹) بطاقات الائتمان للدکتورمحمدعلی القري بن عید، نبذة
تاریخیة، بحث منشورفي مجلة المجمع الفقہ الإسلامي بجدہ: ۷/۲۹۳․
(۱۰) بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي، ص: ۸،
جامعة النجاح الوطنیة، نابلس فلسطین، ۲۰۰۷م․
(۱۱) دیکھئیے: کریڈٹ کارڈکے شرعی احکام،
مولانامحمداسامہ، ص: ۳۱، ۳۲، دارالاشاعت کراچی، کریڈٹ کارڈ، تاریخ،
تعارف، شرعی حیثیت، ڈاکٹر شاہتاز: ۴ ۱، اسکالرز اکیڈمی،
گلشن اقبال کراچی ۱۹۹۸/۔
(۱۲) القري، محمدعلي بن عید، بطاقات الائتمان: ۲،
مجلة مجمع الفقہ الإسلامي: ۷/۴۹۳، ۲۹۴، جدہ․
(۱۳) بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي، ص:۸․
(۱۴) بطاقات الائتمان للدکتور علي القري، ص: ۲، مجلةمجمع الفقہ
الإسلامي: ۷/۲۹۴․
(۱۵) بطاقات الائتمان لفتحی شوکت، ص: ۴․
(۱۶) بطاقات الائتمان للدکتورعلي القري، ص: ۳․
(۱۷) بطاقات الائتمان لفتحی شوکت، ص: ۸․
(۱۸) بحث عن بطاقات الائتمان المصرفیة والتکییف
الشرعي المعمول بہ، في بیت التمویل الکویتي، اعداد: مرکزتطویرالخدمة
المصرفیة، بیت التمویل الکویتي، بحث منشورفي مجلة مجمع
الفقہ الإسلامی بجدة: ۷/۳۴۵․
(۱۹) بطاقات الائتمان للدکتورعلي القري، ص: ۳، مجلّة مجمع الفقہ
الإسلامي: ۷/۲۹۴․
(۲۰)بطاقة
الائتمانلبکر بن عبد اللہ،ص:۵، وبطاقات الائتمان المصرفیة والتکییف الشرعي
المعمول بہ، في بیت التمویل الکویتي،ص:۵․
(۲۱) بطاقة
الائتمان البنکیة فيالفقہ الإسلامي، ص: ۲۶․
(۲۲)البطاقات
البنکیة للدکتورأبيسلیمان عبدالوہاب ،المصدرون للبطاقات عالمیاً،
ص: ۳۴،
دارالقلم دمشق۲۰۰۳ م، ۱۴۲۴ھ․
(۲۳)المرجع
السابق،ص:۳۶․
(۲۴)الأفریقي،ابن
منظور،لسان العرب،تحت مادةب ت ق :۱/۱۰۱،قدیمی کراتشي․
(۲۵)البطاقات
الائتمانیة،تعریفہا وأخذالرسوم علی إصدارھاوالسحب النقدی
بہا:۱،۲․
(۲۶)البطاقات
الدائنیة للعصیمي:۹۵․
(۲۷)The
Concise Oxford Dictionoey(Printed in U.S.A Cretid Card PO272 بحوالہ: البطاقات البنکیة للدکتور
عبدالوہاب:۲۰․
(۲۸)المرجع
السابق․
(۲۹) البطاقات الائتمانیة للدکتورصالح بن محمدالفوزان ،ص:۲․
(۳۰)محیط
المحیط لبطرس البستاني،ص:۱۷،مکتبة لبنان بیروت․
(۳۱) النظریة الاقتصادیة ، أحمد جامع :۲ / ۲۴ ، دارالنہضة العربیة ،القاہرة․
(۳۲)موسوعة
المصطلحات الاقتصادیة،ص:۳،مکتبة القاہرة الحدیثیة․
(۳۳)مجلة
مجمع الفقہ الإسلامي،ع ۱۲،ج:۳:۶۷۶․
(۳۴)البطاقات
البنکیة:۶۶․
(۳۵)بطاقات
الائتمان البنکیة:۲۲․
(۳۶)بطاقات
الائتمان المصرفیة(بیت التمویل الکویتي)مجلة المجمع:۷/۳۴۷․
(۳۷)البطاقات الائتمان البنکیة ،للدکتورعبدالوہاب أبي سلیمان،ص:۶۷․
(۳۸)بطاقات
الائتمان للزحیلي:۱۰․
(۳۹)بینک
سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص :۵۰۔
$ $ $
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:
99 ، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء